عزت مآب! آپ کی رائے کا بہت احترام کہ عدالت چھبیسویں آئینی ترمیم کو منظور بھی کر سکتی ہے اور مسترد بھی لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں ایک آرٹیکل (5) 239 بھی ہے جو واضح، غیرمبہم اوردو ٹوک طور پر قرار دیتا ہے کہ
"کوئ بھی آئینی ترمیم کسی بھی بنیاد پر، چاہے
وزارت خارجہ کے حکام نے سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے اجلاس میں بتایا کہ شام میں گھرے پاکستانیوں کے فوری انخلا کے لئے ہنگامی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ 180 زائرین میں سے 170 کو شام سے لبنان روانہ کیا جاچکا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کے لبنانی وزیر اعظم سے رابطےکےبعد سے لبنانی
پی ٹی آئی مذاکرات کی بات کرے یا سول نافرمانی کی۔ایک ہاتھ میں تلوار لے کر دوسرے ہاتھ سے مصافحہ نہیں ہو سکتا۰ اپنے لئے رعایتیں مانگنے کی خاطر مذاکرات اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے سول نافرمانی کے منصوبے ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔آگے بڑھنا ہے تواپنے کندھوں پر نیا بوجھ نہ لادیں۔
مجھے بیرسٹر علی گوہرکی آرمی چیف سے "ملاقات" کی ساری تفصیلات اور مکالموں کا علم ہے لیکن اگر علی گوہر صاحب ایسا ہی سمجھتے ہیں اور اگر علیمہ خان صاحبہ بھی اسے خوش آیند قرار دے رہی ہیں اور عمران خان بھی اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں اور علی گوہر نے اسے بیک ڈور پراسیس کا نام دیا ہے اور
ذرائع کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی اس خبر میں کوئی صداقت نہیں کہ حکومتی کمیٹی نے پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈز کے جواب میں اپنا موقف تیا ر کرلیا ہے۔ یہ خبر اور اس میں بیان کی گئی تمام تفصیلات بے بنیاد ہیں۔ اس وقت حکومتی کمیٹی میں شامل سات جماعتیں باہمی مشاورت اور اپنی اپنی
یک طرفہ طور پر مذاکراتی عمل سے نکل کر پی ٹی آئی نے نہ صرف غیر سیاسی اور غیر جمہوری سوچ کا مظاہرہ کیاہے، بلکہ اپنے مطالبات کے حوالے سے ایک اچھا موقع بھی ضائع کر دیا ہے۔ اس کی یہ گاڑی تو چھوٹ گئی ہے۔اب اسے وسیع تر مذاکرات کے لئے وزیر اعظم کی تازہ پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔پی ٹی
کیا اعلی عدلیہ کے تمام جج صاحبان نے آئین پاکستان کی پاسداری اور تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے؟ اگر ہاں تو کیا آرٹیکل 200 آئین پاکستان کا حصہ نہیں جو کہتا ہے کہ
"صدر مملکت ہائیکورٹ کے کسی بھی جج کا تبادلہ ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں کر سکتا ہے لیکن اس کے لئے متعلقہ جج کی
رسمی طور پرتحلیل ہو نہ ہو،حکومتی مذاکرتی کمیٹی عملی طور پر غیر فعال( Non Functional ) اور غیر موثر ہو چکی ہے۔ پی ٹی آئی یک طرفہ طور پر مذاکراتی عمل سے نکل جانے کے بعد وزیر اعظم کی پیشکش بھی ٹھکرا چکی ہے۔ اب وہ پر تشدد احتجاج کی ہوم گراؤنڈ کی طرف جانا چاہتی ہے۔ اسے جب کبھی ایک
ہماری عدلیہ چھبیسویں آئینی ترمیم، ججوں کے تبادلوں اور تقرریوں سے بہت پہلے دنیا کے 142 ممالک میں 130ویں اور خطے کے 6 ممالک میں 5ویں نمبر پر آ چکی تھی۔اس اعزاز کا سہرا کسی اور نہیں خود عدلیہ کے سر ہے۔پارلیمنٹ کا ستون ماضی کی نسبت کہیں زیادہ مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے اور انتظامیہ پوری
امریکی میگزین "ٹائم" میں شائع ہونے والا عمران خان کا مضمون، عالمی سطح پر پاکستان کے چہرے پر کالک تھوپنے کی انتہائی قابل مذمت کوشش ہے۔ حکومت، عدلیہ، مسلح افواج اور تمام دوسرے اداروں پر بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہوئے پاکستان کی صورت حال کو " سیاہ عہد" قرار دیاگیا ہے۔مضمون میں یہ
جعفر ایسپریس پر حملے اور سینکڑوں مسافروں کے اغوا کی مذمت کے بجائے، عمران خان کا اپنا بچا کھچا وزن، خواتین اور معصوم بچوں کی زندگیوں سے کھیلنے والے دہشت گردوں کے پلڑے میں ڈال دینا ، نہائت ہی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ اُٹھتے بیٹھتے دوسروں کواپنی حدود یاد دلانے والے کی اپنی بھی کچھ
قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کا بائیکاٹ پی ٹی آئی کی سیاست کے کے عین مطابق ہے۔صرف یہی جماعت ایک سزایافتہ قیدی سے ملاقات کی ضد کو 93 ہزار پاکستانیوں کا خون پینے والی والی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی بنانے پر ترجیح دے سکتی ہے۔ قیدی بھی وہ جس نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی کبھی
بھارت اب سب سے بڑی جمہوریت نہیں،مسلمان اور دیگر اقلیتوں کی سب سے بڑی قتل گاہ بن چکا ہے۰اسرائیل کی پالیسی پر چلتے ہوئے نریندر مودی مقبوضہ کشمیرکو، فلسطین اور غزہ بنانے کی کوشش کررہا ہے۰ پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی دینے والے بھارت کو معلوم ہونا چاہئیے کہ ہمارے دریاؤں کا گلا
بھارت کی ننگی جارحیت نے پاکستا ن کے آپشنز نہایت محدود کر دیے ہیں۔ شہری آبادیوں پر ڈرونز کےبزدلانہ حملوں اور درجنوں معصوم شہریوں کی شہادت کے بعد پاکستان کے پاس ایسی درندگی کا منہ توڑ جواب دینے کے سواکیاکوئی راستہ باقی رہ جاتا ہے؟ شکست تسلیم کرتے ہوئے سفید جھنڈے لہرانے اور مہلت
مودی کی تقریر شرمناک شکست کا اعتراف اور اس کی بدن بولی ہارے ہوئے شخص کا نوحہ تھا۔ ایک ایک لفظ کہہ رہا تھ" میں ہوں اپنی شکست کی آواز"یہ ایک ایسی کھسیانی بلی کی بوکھلاہٹ تھی جسے نوچنے کے لئے کوئی کھمبا بھی نہیں ملا۔آپریشن سندور "بھارت ماتا" کی مانگ میں راکھ بھر گیا۔ اور نہیں تو
"کچھ لو اور کچھ دو" کے معنی اگر ڈیل، سودابازی اور این آر او نہیں تو کیا ہیں؟
کچھ لینے کی عرضی تو بجا لیکن یہ بھی بتا دیا جائے کہ پی ٹی آئی کے پاس اب کسی کو کچھ دینے کے لئے کیا رہ گیا ہے؟